اس میں وطن کا کیا قصور ہے؟






کیا ہم اپنی غلطیوں کا ذمہ دار وطن کو ٹھہرا سکتے ہیں؟



اگر ہماری ذاتی خانہ جنگی کی بنا پر وطنِ عزیز کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی ہے تو اس میں وطن کا کیا قصور ہے؟
 اگر ہماری لاقانونیت ، جھوٹ ، رشوت ، جعلسازی ، مادیت پرستی ، دین و سنت سے غداری اور منتظمین و منصفین کی حرام خوری کے باعث ملک میں انصاف نام کی کوئی شے باقی بچتی نظر نہیں آرہی؛ ظالم دن بہ دن طاقتور اور مظلوم روز بہ روز کمزور ہوتا جارہا ہے ، عدالتیں تھانے اور کوٹ کچہریاں اپنا اعتبار و وقار کھوچکی ہیں ، لاکھوں کیسز کی فائلیں فیصلوں کے انتظار میں دیمک کی خوراک بن چکی ہیں اور ان کے مدعی و مدعی علیہ جناب سے مرحوم ہوچکے ہیں تو اس میں وطن کا کیا قصور ہے؟


اگر عمومی لحاظ سے ہماری کرپشن ، بددیانتی ، اقربا پروری ، شاہ خرچی ، بدعہدی ، کام چوری ، بےحسی ، سستی کاہلی، حسد ، محنت بیزاری اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے غربت اور بے روزگاری کا سانپ ہمیں مسلسل ڈستا جارہا ہے ، ملک پر قرضہ چڑھتا جارہا ہے ، سُود بڑھتا جارہا ہے ، غریب پِستا جارہا ہے ، مزدور گِھستا جارہا ہے ، چوری چکاری عام ہورہی ہے اور صبح و شام ہورہی ہے تو اس میں وطن کا کیا قصور ہے؟


کیا مجھے اس کا غم نہیں کہ میرے وطن کے جوان گہرے پانیوں میں اور ان کے نحیف و ناتواں والدین غم کے اتھاہ گہرے سمندروں میں ڈوب ڈوب جاتے ہیں ؛ ننھے ننھے بچے بھوک کے زخم کھا کر اور ان کے بے بس و بے کس ماں باپ ان کی ترسی ہوئی نظروں کے تیر کھا کر نڈھال ہوئے جاتے ہیں !!


میرا تو کلیجہ پھٹ جاتا ہے جب میں کسی بنتِ حوا کو دو لپ آٹا لینے کے لیے کسی قطار میں کھڑا دیکھتا ہوں ۔۔۔۔اور جب سنتا ہوں کہ کسی بُھک مرے کی ماں ہجوم کے پیروں نیچے کچلی گئی ، اپنے خالی کشکول میں چند روٹیوں کا آٹا ڈالنے کے بجائے اپنی موت بھر کر اور مر کر واپس گھر پہنچی تو قسم بخدا غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے لیکن سوال پھر وہی ہے کہ آخر اس میں وطن کا کیا قصور ہے؟ 


اگر ہماری بداعمالیوں کے سبب ہمارے دن گردش میں ہیں ، ہماری دعائیں تشنہء اجابت ہیں تو واللہ اس میں وطن کا کوئی قصور نہیں۔اگر ہم پر آئے دن سیلاب ، زلزلے ، دھماکے اور مختلف حوادث کی صورت میں کوئی نہ کوئی آفت آن پڑتی ہے تو اس کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں ؛ ہم مذکور و غیر مذکور امور کا طعنہ اس وطن کو کیسے دے سکتے ہیں جس کی فضائیں ، صدائے تکبیر اور میدان ، سجدہ ریزی کے لیے اب بھی سجے پڑے ہیں ، جس کی بنیادوں میں ہمارے لاکھوں شہیدوں کا خون ہے ، جس کی عمارتوں پر ہماری ہزاروں شہید ماؤں کی پاک چادریں سایہ کناں ہیں ، جس کے ریگستانوں کو ہمارے اسلاف نے خونِ جگر دے کر لالہ زار بنایا تھا ، جس کے پرچم تلے دُکھ سُکھ مل کر اطمینان میں بدل جاتے تھے۔


ہم اس قیامتِ صغریٰ کو کیسے بھول سکتے ہیں جس میں شیرخواروں کو نیزوں اور کرپانوں کی انیوں پر صرف اس جرم میں اچھالا گیا کہ ان کے والدین اپنے خوابوں کی جنت 'پاکستان'جانا چاہتے تھے۔ کتنے اندھے کنویں تھے جو پاکستان آتی ، اپنی عزت بچاتی دوشیزاؤں کے مدفن بن گئے ۔ کیا ہم یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ بہت کچھ اتنی جلدی بھول جائیں گے؟؟؟ 


کیا اب وطن کی مٹی زرخیز نہیں رہی جو ہم اسے طعنے دیں ، کیا اب ہماری دھرتی پر چاند نہیں نکلتا ، کیا ہمارا آفتاب بدل گیا ہے ، کیا اب اس کے کوہ و دمن اور دشت و صحرا میں وہ سوز و ساز نہیں رہا جو ہمارے اسلاف کو یہاں کھینچ لایا تھا ؛ اور وہ اس دھرتی پر اپنے رب کے حضور آزادانہ سجدے کرکے سب غم بھول گئے تھے ؛ گویا انہیں ان کی قربانیوں کا صلہ مل گیا تھا اور وہ اپنی جانثاریوں پر مطمئن ہوگئے تھے۔ وہ وطن یہی تھا جسے ہمارے بزرگوں نے اپنے دین و دنیا کی کامیابی کا لازوال خطہ سمجھ کر حاصل کیا تھا ۔ یہ وطن اب بھی وہی ہے ، وطن نہیں بدلا سچ تو یہ ہے کہ ہم بدل گئے ، اگر ہم ہی بدل گئے ہیں تو پھر اس میں وطن کا کیا قصور ہے؟؟؟


اے نگارِ وطن تُوسلامت رہے
اے بہارِ وطن تُو سلامت رہے۔

وطن کی اس عظیم نعمت پر اپنے رب کا شکر ادا کیجیے اور دعا کیجیے کہ خدا تعالیٰ ہمارے وطن کو تاصبحِ قیامت شاد آباد رکھے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.