امیرالمؤمنین حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم ؓ کی نصیحتیں


 

حضرت عمر فاروق اعظم نےحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نصیحت لی


حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: اے ابو الحسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ! مجھے کچھ نصیحت کرو۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: آپ اپنے یقین کو شک نہ بنائیں (یعنی روزی کا ملنا یقینی ہے اس کی تلاش میں اس طرح اور اتنا نہ لگیں کہ گویا آپ کو اس میں کچھ شک ہے)، اور اپنے علم کو جہالت نہ بنائیں (جو علم پر عمل نہیں کرتا وہ اور جاہل دونوں برابر ہوتے ہیں )، اور اپنے گمان کو حق نہ سمجھیں (یعنی آپ اپنی رائے کو وحی کی طرح حق نہ سمجھیں )، اور یہ بات آپ جان لیں کہ آپ کی دنیا تو صرف اتنی ہے کہ جو آپ کو ملی اور آپ نے اسے آگے چلادیا یا تقسیم کرکے برابر کر دیا یا پہن کر پرانا کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے ابوالحسن! آپ نے سچ کہا۔ 


حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا:اے امیرالمؤمنین! اگر آپ کی خوشی یہ ہے کہ آپ اپنے دونوں ساتھیوں حضور ﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاملیں تو آپ اپنی اُمیدیں مختصر کریں اور کھانا کھائیں لیکن پیٹ نہ بھریں اور لنگی بھی چھوٹی پہنیں اور کُرتے پر پیوند لگائیں اور اپنے ہاتھ سے جوتی گانٹھیں ، اس طرح کریں گے تو ان دونوں سے جاملیں گے۔


حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: خیر یہ نہیں ہے کہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد زیادہ ہوجائے، بلکہ خیر یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہو اور تمہاری بُردباری کی صفت بڑی ہو اور اپنے ربّ کی عبادت میں تم لوگوں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ اگر تم سے نیکی کا کام ہوجائے تو اللہ کی تعریف کرو اور اگر برائی کا کام ہوجائے تو اللہ سے اِستغفار کرو۔ اور دنیا میں صرف دو آدمیوں میں سے ایک کے لیے خیر ہے: ایک تو وہ آدمی جس سے کوئی گناہ ہوگیا اور پھر اس نے توبہ کر کے اس کی تلافی کرلی، دوسرا وہ آدمی جو نیک کاموں میں جلدی کرتا ہو۔ اور جو عمل تقویٰ کے ساتھ ہو وہ کم شمار نہیں ہوسکتا، کیوں کہ جو عمل اللہ کے ہاں قبول ہو وہ کیسے کم شمار ہوسکتاہے (کیوں کہ قرآن میں ہے کہ اللہ متقیوں کے عمل کو قبول فرماتے ہیں )۔


حضرت عُقبہ بن ابوالصہباء کہتے ہیں : جب ابنِ مُلْجَم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خنجر مارا تو حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ رو رہے تھے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے میرے بیٹے! کیوں رورہے ہو؟ عرض کیا: میں کیوں نہ روئوں جب کہ آج آپ کا آخرت کا پہلا دن اور دنیا کا آخری دن ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: چار اور چار (کل آٹھ) چیزوں کو پلّے باندھ لو۔ ان آٹھ چیزوں کو تم اختیار کروگے تو پھر تمہارا کوئی عمل تمھیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اباجان! وہ چیزیں کیا ہیں ؟ فرمایا: سب سے بڑی مال داری عقل مندی ہے، یعنی مال سے بھی زیادہ کام آنے والی چیز عقل اور سمجھ ہے، اور سب سے بڑی فقیری حماقت اور بے وقوفی ہے۔ سب سے زیادہ وحشت کی چیز اور سب سے بڑی تنہائی عُجب اور خود پسندی ہے، اور سب سے زیادہ بڑائی اچھے اَخلاق ہیں ۔


حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : میں نے کہا:اے اباجان! یہ چار چیزیں تو ہوگئیں ، مجھے باقی چار چیزیں بھی بتادیں ۔ فرمایا: بے وقوف کی دوستی سے بچنا، کیوں کہ وہ فائدہ پہنچاتے پہنچاتے تمہارا نقصان کردے گا۔اور جھوٹے کی دوستی سے بچنا، کیوں کہ جو تم سے دور ہے یعنی تمہارا دشمن ہے اسے تمہارے قریب کردے گا اورجو تمہارے قریب ہے یعنی تمہارا دوست ہے اسے تم سے دور کردے گا (یا وہ دور والی چیز کو نزدیک اور نزدیک والی چیز کو دور بتائے گا اور تمہارا نقصان کردے گا)۔ اور کنجوس کی دوستی سے بھی بچنا،کیوں کہ جب تمھیں اس کی سخت ضرورت ہوگی وہ اس وقت تم سے دورہوجائے گا۔ اور بد کار کی دوستی سے بچنا،کیوں کہ وہ تمھیں معمولی سی چیز کے بدلے میں بیچ دے گا۔ 


حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: توفیقِ خداوندی سب سے بہترین قائد ہے اور اچھے اَخلاق بہترین ساتھی ہیں ۔ عقل مندی بہترین مصاحب ہے۔حسنِ اَدب بہترین میراث ہے، اور عُجب وخودپسندی سے زیادہ سخت تنہائی اور وحشت والی کوئی چیز نہیں ۔ 


حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اسے مت دیکھو کہ کون بات کررہاہے، بلکہ یہ دیکھو کہ کیا بات کہہ رہاہے۔ حضرت علی نے فرمایا: ہر بھائی چارہ ختم ہوجاتاہے، صرف وہی بھائی چارہ باقی رہتاہے جولالچ کے بغیر ہو۔ 




*[حیاة الصحابہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ]*




*[صدقہ جاریہ کے لیے یہ تحریر شئیر ضرور کریں]*      


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.