یومِ جشن پاکستان کی آزادی: 100 سالہ جدوجہد اور علمائے کرام کی قربانیاں"نِ آزادی(Independence Day)





14 اگست: آزادی کی نعمت اور علمائے کرام کی قربانیوں کی یادگار



ہمارے مُلْکِ عزیز پاکستان میں 14 اگست کو یومِ جشنِ آزادی منایا جاتا ہے۔ الحمد للہ! پاکستان اللہ پاک کی بڑی نعمت ہے*بَرِّصغیر (Subcontinent)میں مسلمان کم و بیش 100 سال تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہے *مسلمانوں کو ذِلّت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا*ان پر ظُلْم و سِتَم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے*کافِر مسلمانوں کو جانی اور مالی نقصان پہنچاتے*بات بات پر ان مسلمانوں کی عزّت پامال کرتے*مُسْلَے کہہ کر مذاق اُڑاتے *اور نہ جانے کیسی کیسی تکلیفوں سے دوچار کیا کرتے تھے۔پِھر رَبّ کریم نے ہمیں اپنا آزاد اسلامی ملک عطا فرما دیا۔ اس پر اللہ پاک کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان ہمیں تحفے میں نہیں دیا گیا، یہ کم و بیش 100 سالہ محنتوں کا نتیجہ ہے، عظیم عاشِقِ رسول علّامہ فضلِ حق خیر آبادی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ سے تحریکِ آزادی کا آغاز ہوا تھا، 1857ء میں اسی آزادی کی تحریک میں تقریباً 22 ہزار عُلَمائے کرام شہید ہوئے  ہزار ظُلْم و ستم کے باوُجُود عاشقانِ رسول عُلَمائے کرام نے دِن رات محنت کی *سید محمد محدِّثِ کچھوچھوی*مولانا مصطفےٰ رضا خان *مفتی نَعِیمُ الدِّین مراد آبادی *پیر جماعت علی شاہ صاحِب *مولانا احمد قادری*مولانا عبد الماجد بدایونی *عبد العلیم میرٹھی *سید احمد سعید کاظمی*مفتی احمد یار خان نعیمی اور ان کے عِلاوہ ہزاروں عاشقانِ رسول عُلَمائے کرام رَحمۃُ اللہِ علیہم نے دِن رات کوششیں فرمائیں، اُمّت کو بیدار کیا، بیانات کئے، کتابیں لکھیں، گھر گھر جا کر مسلمانوں کو جذبہ دیا ان محنتوں کے نتیجے میں بَرِّ صغیر کے کونے کونے سے نعرہ لگنے لگا؛
پاکستان کا مطلب کیا؟ لَاۤاِلٰہَ اِلَّا اللہ۔ کون ہمارے راہنما؟ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ۔
 آخر عاشقانِ رسول عُلَمائے کرام اور عوام کی مشترکہ کوششیں(Efforts) رنگ لائیں، مُسْلِم راہنماؤں کی محنت کام آئی، اگست کی 14 تاریخ تھی، رَمْضَانُ الْمُبارَک کا مہینا تھا، 27 وِیں شب تھی، ایسی مبارک گھڑیوں میں، ایسی بابرکت رات میں اللہ کریم نے ہمیں پاکستان (Pakistan)کی صُورت میں اپنا آزاد اسلامی مُلْک عطا فرمادیا۔
کبریا کا لطف تھا اور رحمتِ شاہِ زمَن                                                       ہم کو سینتالیس میں حاصِل ہوا اپنا وَطن
ہم پہ جِدّ و جُہْدِ آزادی میں تھے سایہ فگن                                              اَولیائے اُمَّتِ اَحْمَد، صحابہ، پنج تَن
اہلسنت و الجماعت کی مقاصد سے لگن                                                رنگ کیسے لے نہ آتی، کیوں نہ  مل جاتا وطن
سینکڑوں پیروں، ہزاروں عالموں کی دوڑ دھوپ تھی نتیجہ خیر، ہم نے لے لیا اپنا وطن
الحمد للہ! پاکستان رَبِّ رحمٰن کا بہت بڑا احسان ہے، اس پر جتنا شکر کریں، کم ہے۔ البتہ یہاں ایک اور بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ ہم نے پاکستان کیوں بنایا تھا؟ ہمارے ہزاروں عاشقانِ رسول عُلَمائے کرام ایک آزاد مُلْک کیوں چاہتے تھے؟ کیا انہیں ایک الگ خطّے کی ضرورت تھی؟ کیا وہ مَعَاذَ اللہ! عہدوں کے لالچی تھے؟ نہیں، نہیں...!! ہر گز نہیں۔ * مسلمان اپنا آزاد وطن چاہتے تھے تاکہ پُوری آزادی کے ساتھ غُلامئ مصطفےٰ کا اظہار کر سکیں *مسلمان آزاد وطن چاہتے تھے تاکہ پُوری آزادی کے ساتھ نمازیں پڑھ سکیں*ہمیں آزاد وطن چاہئے تھا تاکہ پُوری آزادی کے ساتھ روزے رکھ سکیں*ہمیں آزاد وطن چاہئے تھا تاکہ پُوری آزادی کے ساتھ اسلام کے مُعاشی اُصُولوں پر عمل کر سکیں*ہمیں آزاد وطن چاہئے تھا تاکہ پُوری آزادی کے ساتھ قرآن و سُنّت کی تبلیغ کر سکیں*ہم آزاد وطن چاہتے تھے، کیوں؟ اس لئے تاکہ کھل کر، پُوری آزادی کے ساتھ، پُورے جوش اور جذبے کے ساتھ، مکمل شوق اور محبّت کے ساتھ اسلام کا پُورا رنگ اپنے اُوپَر چڑھا بھی سکیں، اس کا اِظْہار بھی کر سکیں۔
یعنی یُوں کہہ لیجئے کہ آزادی ملنے سے پہلے اسلام میں پُورا پُورا داخِل ہو جانے کیلئے ہمیں قیمت چکانی پڑتی تھی*قربانیاں دینی پڑتی تھیں*تکلیفیں اُٹھانی پڑتی تھیں، اس لئے ہمیں اپنا آزاد وطن چاہئے تھا تاکہ ہم پُوری آزادی کے ساتھ مکمل اسلامی زندگی گزار سکیں مگر افسوس...!!
مسجد تو بنا دِی شب بھر میں، ایماں کی حرارت والوں نے   من اپنا پُرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اُن عظیم لوگوں نے، عاشقانِ رسول عُلَمائے کرام نے جانیں قربان کر دیں، تکلیفیں اُٹھا لیں، کروڑوں لوگوں نے ہجرت کی اور لاکھوں شہید ہوئے،  ان شہیدوں کے خُون پر یہ وطن آزاد کروایا گیا،یہ قربانیاں دی گئی تھیں تاکہ مسجدیں آباد ہوں مگر مسجدیں وِیران ہو گئیں *قربانیاں دی گئی تھیں تاکہ سنتیں عام ہوں مگر معاشرے میں فیشن عام ہو گیا *قربانیاں دی گئی تھیں تاکہ قرآن کی تعلیمات  عام ہوں مگر اب مسلمانوں نے قرآن سیکھنا تو دور کی بات اس کی تلاوت کرنا بھی چھوڑ دیا*یہ قربانیاں دی گئی تھیں تاکہ ہم پُورے پُورے اسلام میں داخِل ہوں مگر افسوس! اَکثر مسلمانوں کا کردار بھی غیر اسلامی ہو گیا، ظاہِری شکل و صُورت بھی غیر اسلامی ہو گئی۔
کیا یہی جِدّت ہے...؟
ایک یہ بھی سوچ ہمارے ہاں بنتی چلی جا رہی ہے، نہ جانے کہاں سے یہ سوچ مُعَاشرے میں آگئی اور پھیلتی جا رہی ہے، جب اسلام کی بات کی جاتی ہے، قرآن و سُنّت کی بات کی جاتی ہے، اسلامی اَخْلاق اور طور طریقوں کی بات کی جاتی ہے تو لوگ کہتے ہیں: مولانا...!! کیا پُرانی باتیں کر رہے ہو، یہ دقیانوسِیّت (بہت پُرانی سوچ) ختم کرو! اب نیا دور ہے، دُنیا ترقی کر گئی ہے۔
لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ! کیا مَعَاذَ اللہ! ایک مسلمان کو یہ زیب دیتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کو پُرانی باتیں کہے، اسلامی طور طریقوں کو دقیانُوسِیّت (یعنی بہت پُرانی سوچ) کا نام دے؟ ہر گز زیب نہیں دیتا۔
اور ویسے بھی دیکھا جائے تو اسلام پُرانی باتیں نہیں کرتا، اسلام تو دُنیا کا سب سے نیا اور Latest دِین ہے، جی ہاں! پچھلے جتنے دِین تھے، سب منسوخ ہو چکے*اسلام آخری دِین ہے، اس کے بعد نہ کوئی نیا دِین آیا ہے، نہ قیامت تک آئے گا*اسلامی شریعت آخری شریعت ہے، اس کے بعد نہ کوئی شریعت آئی ہے، نہ قیامت تک آئے گی*اسلامی تعلیمات آخری آسمانی تعلیمات ہیں، اس کے بعد نہ کوئی آسمانی تعلیم آئی ہے، نہ قیامت تک آئے گی*قرآنِ کریم آخری وحی ہے، اس کے بعد نہ کوئی وحی آئی ہے، نہ قیامت تک آئے گی، لہٰذا اسلام جدید تَرِین دِین ہے۔ اس کے بَرخِلاف جتنی باتیں ہمیں بتائی جاتی ہیں، جو یہ رَسْم و رواج بیان کئے جاتے ہیں، فیشن کا نام دے کر جو بےحیائیاں عام کی جاتی ہیں، یہ سب تو بہت پُرانی باتیں ہیں، ہزارہا ہزار سال پہلے کے قصّے ہیں، اب لوگ انہیں جِدَّت کا نام دے دیتے ہیں۔ میں آپ کو چند مثالیں پیش کرتا ہوں؛
بےپردگی جدّت یا صدیوں پُرانا قصہ...؟
اللہ پاک نے پردے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى (پارہ22، سورۂ احزاب:33)
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان: اور بےپردہ نہ رہو جیسے پہلی جاہلیت کی بےپردگی۔
اس سے معلوم ہوا؛ بےپردگی پہلی جاہلیت کا رواج ہے، پہلی جاہلیت کون سی ہے؟ حضرت عبد اللہ بن عبّاس رَضِیَ اللہُ عنہما فرماتے ہیں: حضرت ادریس عَلَیْہ ِالسَّلام  اور حضرت نُوح عَلَیْہ ِالسَّلام  کے درمیان کا جو عرصہ ہے، وہ جاہلیتِ اُوْلیٰ کہلاتا ہے، اس وقت عورتیں بن سَنْور کر بےپردہ پھرتی تھیں، غیر مردَوں پر اپنے حُسْن کا اِظہار کیا کرتی تھیں۔ حضرت مَقَاتِل فرماتے ہیں: نَمرود کے زمانے کی بات ہے، اس وقت عورتیں چھوٹے چھوٹے اور باریک کپڑے پہن کر گلیوں میں نکلا کرتی تھیں۔([1])
اب بتائیے! کیا یہ جِدَّت ہے...! ذرا حساب کتاب تو کریں؛ *پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم كی وِلادت سے لے کر حضرت عیسیٰ عَلَیْہ ِالسَّلام  کی وِلادت کے درمیان ساڑھے 500 سے زیادہ سالوں کا فاصلہ ہے*پِھر حضرت عیسیٰ عَلَیْہ ِالسَّلام  سے حضرت موسیٰ عَلَیْہ ِالسَّلام  کے درمیان 17صدیوں کا فاصلہ ہے *پِھر حضرت موسیٰ عَلَیْہ ِالسَّلام   سے حضرت ابراہیم عَلَیْہ ِالسَّلام  کے درمیان 10 صدیوں کا فاصلہ ہے *اور حضرت ابراہیم عَلَیْہ ِالسَّلام  اور نُوح عَلَیْہ ِالسَّلام  کے درمیان بھی 10 صدیوں کا فاصلہ ہے۔([1]) یہ کُل مِلا کر تقریباً 4250 سال بنتے ہیں، یعنی *یہ بےپردگی*عورتوں کا چادر نہ اَوڑھنا*غیر محرموں سے پردہ نہ کرنا*غیر مردَوں کے سامنے اپنے جسم کی نمائش کرنا*چھوٹے چھوٹے اور باریک کپڑے پہننا یہ آج سے 4 ہزار 250 سال پہلے کا انداز ہے، جسے آج لوگ جدّت کہہ رہے ہیں، کیا اتنی پُرانی بات کو جِدَّت کہتے ہیں؟ اسلام کو دقیانُوسِیّت (یعنی بہت پُرانی سوچ) کا طعنہ دینے والے خُود کو دیکھیں کتنے پُرانے دَور میں جِی رہے ہیں۔ جدّت کیا ہے؟ آئیے! میں آپ کو بتاتا ہوں، اللہ پاک فرماتا ہے:
وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ (پارہ:18، سورۂ نور:31)
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان:اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں 
یہ ہے جِدَّت...!! عورت سے متعلق سب سے جدید تَرِین تعلیم...!! یہ آج سے 42 صدیوں پہلے کی نہیں بلکہ کم و بیش 14 صدیوں پہلے کی تعلیم ہے۔ اب بتائیے! اسلامی پردہ جدید ہے یا یہ بےپردگی جدید ہے۔
الحمد للہ! اسلامی پردہ....!! *اس میں جدّت بھی ہے*اس میں حیا بھی ہے*اس میں ایمان بھی ہے*اس میں دِین بھی ہے*اس میں مُعَاشرے کی حفاظت بھی ہے*اور بےپردگی تو نِری بےحیائی ہے* جہنّم کا عذاب ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.