حجاج بن یوسف: ایک عبرتناک زندگی اور موت کی داستان

 




حجاج بن یوسف کی ابتدائی زندگی اور مذہبی رجحانات


*حجاج بن یوسف حافظِ قرآن تھا، وہ تہجد کی ایک رکعت میں دس سپاروں کی تلاوت کرتا تھا، باجماعت نماز پڑھاتا تھا اور شراب و زنا سے دور بھاگتا تھا لیکن انتہائی ظالم تھا اور جب اس کی موت آئی تو انتہائی عبرتناک موت آئی.



حضرت سعید بن جبیر کا قتل اور حجاج کی پستی

حضرت سعید بن جبیر جو کہ ایک تابعی بزرگ تھے، ایک دن ممبر پر بیٹھے ہوۓ یہ الفاظ ادا کیئے کہ حجاج ایک ظالم شخص ہے اور ادھر جب حجاج کو پتہ چلا کہ آپ میرے بارے میں ایسا گمان کرتے ہیں تو آپ کو دربار میں بلا لیا اور پوچھا کیا تم نے میرے بارے میں ایسی باتیں بولی ہیں تو آپ نے فرمایا ہاں بالکل تو ایک ظالم شخص ہے، یہ سن کر حجاج کا رنگ غصے سے سرخ ہو گیا اور آپ کے قتل کے احکامات جاری کر دیئے. پھر جب آپ کو قتل کے لیئے دربار سے باہر لے کر جانے لگے تو آپ مسکرا دیئے تو حجاج کو ناگوار گزرا اور اس نے پوچھا کیوں مسکراتے ہو، تو آپ نے جواب دیا کہ تیری بے وقوفی پر اور جو اللّٰہ تجھے ڈھیل دے رہا ہے اس پر مسکراتا ہوں. حجاج نے پھر حکم دیا کہ اسے میرے سامنے ذبح کر دو اور جب خنجر گلے پر رکھا گیا تو آپ نے اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا اور یہ جملہ فرمایا کہ اے اللّٰہ میرا چہرہ تیری طرف ہے اور میں تیری رضا پر راضی ہوں، یہ حجاج نہ موت کا مالک ہے نہ زندگی کا، جب حجاج نے یہ سنا تو بولا اس کا رخ قبلہ کی طرف سے پھیر دو، جب قبلہ سے رخ پھیرا تو آپ نے فرمایا کہ یااللّٰہ رخ جدھر بھی ہو تو ہر جگہ موجود ہے، مشرق یا مغرب ہر طرف تیری حکمرانی ہے، میری دعا ہے کہ میرا قتل اس کا آخری ظلم ہو اور میرے بعد اسے کسی پر مسلط نہ فرمانا. جب آپ کی زبان سے یہ جملہ ادا ہوا تو اس کے ساتھ ہی آپ کو قتل کر دیا گیا اور اتنا خون نکلا کہ دربار تر ہو گیا، ایک سمجھدار بندہ بولا کہ اتنا خون تب نکلتا ہے جب کوئی خوشی خوشی مسکراتا ہوا اللّٰہ کی رضا پر راضی ہو جاتا ہے.


قرآن مجید کی خدمت اصلاحات اور فتوحات 

حجاج بن یوسف کے نام سے سب واقف ہیں، حجاج کو عبد الملک نے مکہ، مدینہ، طائف اور یمن کا نائب مقرر کیا تھا اور اپنے بھائی بشر کی موت کے بعد اسے عراق بھیج دیا جہاں سے وہ کوفہ میں داخل ہوا اور ان علاقوں میں بیس سال تک حجاج کا عمل دخل رہا.*
ماس نے کوفے میں بیٹھ کر زبردست فتوحات حاصل کیں، اس کے دور میں مسلمان مجاہدین چین تک پہنچ گئے تھے، حجاج بن یوسف نے ہی قرآن پاک پر اعراب لگوائے، اللّٰہ تعالیٰ نے اسے بڑی شجاعت اور فصاحت و بلاغت نوازا تھا. حجاج حافظِ قرآن تھا، شراب نوشی اور بدکاری سے بچتا تھا، وہ جہاد کا دھنی اور فتوحات کا حریص تھا مگر اس کی تمام اچھائیوں پر اس کی ایک برائی نے پردہ ڈال دیا تھا.

حجاج کا ظلم و ستم اور قتل و غارت

حجاج بہت ظالم تھا، اس نے اپنی زندگی میں ایک خونخوار درندے کا روپ دھار رکھا تھا، ایک طرف موسیٰ بن نصیر اور محمد بن قاسم کفار کی گردنیں اڑا رہے تھے اور دوسری طرف وہ خود اللّٰہ کے بندوں، اولیاؤں اور علمائے کرام کے خوں سے ہولی کھیل رہا تھا. حجاج نے ایک لاکھ بیس ہزار انسانوں کو قتل کیا ہے، اس کے جیل خانوں میں ایک ایک دن میں اسی اسی ہزار قیدی ایک وقت میں ہوتے جن میں سے تیس ہزار عورتیں ہوتی تھیں، اس نے جو آخری قتل کیا وہ عظیم تابعی اور زاہد و پارسا انسان حضرت سعید بن جبیر رضی اللّٰہُ تعالیٰ عنہ کا قتل تھا. انہیں قتل کرنے کے بعد حجاج پر وحشت سوار ہو گئی تھی، وہ نفسیاتی مریض بن گیا تھا، وہ جب بھی سوتا تو حضرت سعید بن جبیر اس کے خواب میں آکر اس کا دامن پکڑ کر کہتے کہ اے دشمنِ خدا تو نے مجھے کیوں قتل کیا، میں نے تیرا کیا بگاڑا تھا؟ جواب میں حجاج کہتا کہ مجھے اور سعید کو کیا ہو گیا ہے. اس کے ساتھ حجاج کو وہ بیماری لگ گئی جسے زمہریری کہا جاتا ہے، اس میں سخت سردی کلیجے سے اٹھ کر سارے جسم پر چھا جاتی تھی، وہ کانپتا تھا، آگ سے بھری انگیٹھیاں اس کے پاس لائی جاتی تھیں اور اس قدر قریب رکھ دی جاتی تھیں کہ اس کی کھال جل جاتی تھی مگر اسے احساس نہیں ہوتا تھا


حجاج کی بیماری اور عبرتناک موت

حکیموں کو دکھانے پر انہوں نے بتایا کہ پیٹ میں سرطان ہے، ایک طبیب نے گوشت کا ٹکڑا لیا اور اسے دھاگے کے ساتھ باندھ کر حجاج کے حلق میں اتار دیا پھر تھوڑی دیر بعد دھاگے کو کھینچا تو اس گوشت کے ٹکڑے کے ساتھ بہت عجیب نسل کے کیڑے چمٹے ہوۓ تھے اور اتنی بدبو تھی جو پورے ایک مربع میل کے فاصلے پر پھیل گی، درباری اٹھ کر بھاگ گئے اور حکیم بھی بھاگنے لگا تو حجاج بولا کہ کدھر جاتا ہے، پہلے علاج تو کر میرا، حکیم بولا تیری بیماری زمینی نہیں آسمانی ہے، اللّہ پاک سے پناہ مانگ حجاج، جب مادی تدبیروں سے مایوس ہو گیا تو اس نے حضرت حسن بصری رحمتہ اللّہ علیہ کو بلوایا اور ان سے دعا کی درخواست کی تو وہ حجاج کی حالت دیکھ کر رو پڑے اور فرمانے لگے میں نے تجھے منع کیا تھا کہ نیک بندوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنا، ان پر ظلم نہ کرنا لیکن تو باز نہ آیا 

ظالم کی رسی دراز مگر انجام یقینی

آج حجاج عبرت کا سبب بنا ہوا تھا، وہ اندر باہر سے جل رہا تھا، وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا تھا، حضرت بن جبیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے چالیس دن بعد ہی حجاج کی بھی موت ہو گئی تھی. جب دیکھا کہ بچنے کا امکان نہیں تو قریبی عزیزوں کو بلایا جو بڑی کراہت کے ساتھ حجاج کے پاس آۓ تو وہ بولا کہ میں مر جاؤں تو جنازہ رات کو پڑھانا اور صبح ہو تو میری قبر کا نشان بھی مٹا دینا کیوں کہ لوگ مجھے مرنے کے بعد قبر میں بھی نہیں چھوڑیں گے.اگلے دن حجاج کا پیٹ پھٹ گیا اور اس کی موت واقع ہوگئی، اللّٰہ ظالم کی رسی دراز ضرور کرتا ہے لیکن جب ظالم سے حساب لیتا ہے تو فرشتے بھی خشیت الٰہی سے کانپتے ہیں اور عرش ہل جاتا ہے.اللّہ ظالموں کے ظلم سے ہم سب کو محفوظ رکھے. آمین

یہ آرٹیکل دوسروں کے ساتھ شیئر کریں تاکہ سب ظلم کے انجام سے آگاہ ہو سکیں۔"

"نیچے دی گئی کمنٹس سیکشن میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔"

حجاج بن یوسف
قرآن کی خدمت
اسلامی تاریخ کے ظالم حکمران
سعید بن جبیر کا قتل
عبرت ناک موت

#حجاج_بن_یوسف #اسلامی_تاریخ #عبرت #ظالم_کا_انجام #حضرت_سعید_بن_جبیر

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

Please Select Embedded Mode To show the Comment System.*

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !