1947 کے خون آشام واقعات: ہجرت، ظلم اور بربریت کی داستانیں


 

"آزادی کی قیمت: برصغیر میں تقسیم کے دوران مسلمانوں پر ہونے والے مظالم"


تین رپورٹ
تین واقعات

پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے مہاجرین کی ٹرینوں پر بھی جابجاحملے ہوتے رہے۔ اکثر ٹرینوں کے سارے کے سارے مسافر فنا کے گھاٹ اتار دیئے جاتے، نوجوان لڑکیاں اغوا کرلی جاتیں اور ان کی زندگیاں موت سے بدتر ہوجاتیں۔ اس ضمن میں بے شمار واقعات میں سے صرف دو کا تذکرہ کیاجاتاہے۔

پہلے واقعہ

راوی گنڈا سنگھ والا ریلوے سٹیشن کا اسسٹنٹ ریلوے ماسٹرخودہے ۔وہ کہتاہے:ایک مہاجر ٹرین فیروز پور کی طرف سے قصور آرہی تھی۔  گنڈا سنگھ والا سٹیشن پہنچ کر رکی ۔ مجید یزدانی صاحب پلیٹ فارم پر اس کا استقبال کررہے تھے گاڑی رکی تو انہوں نے دیکھا کہ سب بوگیا ں خون سے لت پت ہیں اور ڈبوں میں لاشوں کے انبار لگے ہیں۔  یہ منظر اس زمانے کا معمول تھا۔ آگے ایک اور قسم کا منظر آرہا تھا ۔  سب بوگیوں میں جھانکتے ہوئے جب وہ آخری بوگی کے قریب پہنچے تو وہاں بچوں کے رونے پیٹنے اور کراہنے کی درد ناک آوازوں نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔  جھانک کر دیکھا تو ایک روح فرسا منظر ان کے سامنے تھا۔  اس بوگی میں ایک سال سے پانچ سال تک کی عمر کے بے شمار بچوں کی زندہ لاشیں خون میں لت پت کلبلا رہی تھیں ۔  ان بچوں کو ذبح نہیں کیاگیا تھا بلکہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر زندہ لاشوں کی صورت میں پاکستان کی طرف دھکیل دیاگیا ۔  کیا اس سے زیادہ بہیمیت اور درندگی کی مثال کہیں تاریخ میں مل سکے گی۔ (بحوالہ:جدوجہد آزادی میں پنجاب کا کردار از ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار۔) 

دوسرا واقعہ

نومبر 1947 کو ایک شام واہگہ ریلوے اسٹیشن پر اہل لاہور کا ایک جم غفیر اس گاڑی کے استقبال کے لئے موجود تھا جو مہاجرین کو لے کر کالکا سے چلی تھی اور براستہ امرتسر پاکستان پہنچ رہی تھی خاصے انتظار کے بعد دھندلائے ہوئے افق پر ایک سیاہ دھبہ منتظر لوگوں کی سمت بڑھتا ہوا نظر آیا۔  یہ ریل کا انجن تھا ۔ خوشی کی ایک لہر ہجوم میں پھیل گئی۔  وہ پانی کے مٹکوں اور کھانے کے طباقوں کا جائزہ لینے لگے جو انہوں نے پاک وطن میں آنے والے مہاجربھائیوں کے لئے تیار کررکھے تھے۔ جوں جوں گاڑی نزدیک آتی گئی لوگوں کاجوش و خروش بڑھتاگیا۔ انہوں نے نعرہ تکبیر ،نعرہ رسالت اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے لیکن گاڑی سے ان کے نعروں کا کوئی جواب نہ آیا۔ گاڑی اسٹیشن کی حدود میں داخل ہوئی اور ہلکی رفتار سے چلتی پلیٹ فارم پر آرکی، مگر گاڑی کا کوئی دروازہ کھلا  نہ اس میں سے کوئی ذی روح برآمد ہوا۔ لوگوں کے دل انجانے اندیشے سے دھڑک اٹھے ۔اور جب انہوں نے کھڑکیوں سے ڈبوں کے اندر جھانکا توان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ کرپانوں سے کٹے ہوئے گلے، گولیوں سے چھلنی سینے، جسم سے علیحدہ ہوئے بازو، پھٹے ہوئے پیٹ، ظلم وتشدد کی المناک داستان سنارہے تھے۔ پھر نوجوانوں نے گاڑی کے ڈبے آپس میں تقسیم کرلئے اور خون میں لت پت، کٹی پھٹی اوپر نیچے پڑی لاشوں کو عزت واحترام کے ساتھ آبدیدہ آنکھوں سے ہدیہ عقیدت پیش کرتے اتارنے لگے۔ (بحوالہ: 1947 کے مظالم کی کہانی خود مظلوموں کی زبانی ۔از حکیم محمد طارق محمود چغتائی۔)

تیسرا واقعہ

لند ن کے اخبار ڈیلی میل کے نمائندہ خصوصی مسٹر رالف نے انہی ایام میں کراچی سے دہلی تک کا سفر کیا۔ اس نے 27اگست 1947کے ڈیلی میل میں لکھا : میری کہانی صرف وہ لوگ سن سکتے ہیں جو بہت بڑا دل گردہ رکھتے ہوں۔ جب میں کراچی سے براستہ لاہور عازم دہلی ہوا تو کراچی سے لاہور تک راستے میں سفاکی کا کوئی منظر نظر نہ آیا ،اور نہ ہی میں نے کوئی لاش دیکھی۔ لاہور پہنچ کر مشرقی پنجاب میں ہونے والی دہشت وبربریت کے آثار نمایاں نظر آنے لگے کیونکہ اسی دن لاہور میں خون سے لت پت ریل پہنچی تھی، یہ ریل 9ڈبوں پر مشتمل تھی جس پر آسانی سے ایک ہزار مسافر سماسکتے تھے۔ اس ریل کے مسافروں کو بٹھنڈا کے جنکشن پر بے دریغ تہِ تیغ کردیاگیاتھا۔ ہماری گاڑی اتوار کی صبح دہلی کے لئے روانہ ہوئی ۔پاکستان کی سرحد عبور کرنے کے بعد جابجا ایسے مناظر بکھرے پڑے تھے جولاہور کی لٹی پٹی ٹرین سے کہیں زیادہ ہولنا ک اور دہلادینے والے تھے۔ گدھ ہرگاؤں کے قریب سے گزرنے والی ریلوے کی پٹری پر اکٹھے ہورہے تھے، کتے انسانی لاشوں کو بھنبھوڑ رہے تھے اور فیروز پور کے مکانات سے ابھی تک شعلے اٹھ رہے تھے۔ جب ہماری ریل بٹھنڈا پہنچی تو مجھے ریل سے ذرا فاصلے پر انسانی لاشوں کا ایک ڈھیر نظر آیا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے پولیس کے دو سپاہی وہاں مزید لاشوں سے لدی بیل گاڑی لائے جو لاشوں کے ڈھیر پر ڈال دی گئی۔ ا س ڈھیر پر ایک زندہ انسان کراہ رہا تھا ۔ سپاہیوں نے اسے دیکھا لیکن وہ اپنی لائی ہوئی لاشیں ڈھیر پر پھینک کر سسکتے اور کراہتے انسان کو وہیں چھوڑ کر چلتے بنے۔ وہ مزید لکھتاہے : فیرو زپور سے ہجرت کرتے ہوئے ایک لٹاپِٹا قافلہ جب ایک جگہ سستانے کیلئے رکا تو اچانک سکھوں نے حملہ کردیا۔ ایک عورت کی گود میں پانچ چھ ماہ کا بچہ تھا۔ ایک وحشی درندے نے وہ بچہ ماں کی گود سے چھین کر ہوا میں اچھالا اور پھر اس کی کرپان ننھے معصوم کے سینے میں ترازو ہوگئی اور اس کا پاکیزہ خون اس وحشی درندے کے کراہت آمیز چہرے پر ٹپ ٹپ گرنے لگا۔ بچے کے تڑپتے جسم کو ماں کے سامنے لہراکر درندے نے کہالو! یہ ہے تمہارا پاکستان۔ جب ماں نے اپنے جگر گوشے کو نوکِ سناپہ سجے دیکھا تو اس کا دل بھی دھڑکنا بھول گیا۔ ڈیلی میل کایہ نمائندہ خصوصی آگے چل کر لکھتا ہے : بٹھنڈاسٹیشن پر ہم نے جو آخری نظارہ دیکھا وہ انتہائی کریہہ ، گھنانا اور انسانیت سوز تھا۔ جونہی ہماری ٹرین چلی، ہم نے دیکھا کہ چار سکھ چھ مسلمان لڑکیوں کو انتہائی بے دردی سے زدوکوب کرتے ہوئے ان کی سرعام عصمت دری کررہے ہیں۔ دولڑکیوں کوتو انہوں نے ہماری آنکھوں کے سامنے ذبح بھی کرڈالا۔(بحوالہ: خون مسلم ارزاں ہے۔ از ڈاکٹر سعید احمد ملک) امرتسر کی صورتِ حال بھی باقی جگہوں سے کچھ مختلف نہ تھی ۔ ہر طرف قتل وغارت ، آتش زنی اور لوٹ مارکا بازار گرم تھا۔ 15اگست کی صبح نو بجے کے قریب تقریبا پانچ سو بلوائیوں نے ہندو،سکھ پولیس اور فوج کے ساتھ مل کر کوچہ رنگریزاں پر حملہ کردیا اور اس کے تمام مسلمان باسیوں کو تہِ تیغ کردیا ۔ دوسرے دن جب ایک مجسٹریٹ کے ساتھ اس محلے کا معائنہ کیا گیا تو گلی کوچوں میں لاشوں کے سوا کچھ نہ تھا ۔ مکانوں کے اندر جھانکا تو وہ بھی لاشوں سے اٹے پڑے تھے۔ ایک مسجد کے اندر نظر ڈالی تو وہا ں بھی متعدد لاشیں نظر آئیں

 آیا اس کا کچھ اندازہ لندن ٹائمز کے نامہ نگار آین مورسن کی ذاتی مشاہدات پر مبنی ان تین رپورٹوں سے لگایاجاسکتاہے جو اس نے اگست اور ستمبر1947 کو جالندھر اور امرتسرسے اپنے اخبار کو ارسال کی تھیں۔

لی رپورٹ میں وہ لکھتا ہے سکھ مشرقی پنجاب کو مسلمانوں سے خالی کروانے میں سرگرم ہی وہ ہرروز بے دردی سے سینکڑوں افراد کو تہِ تیغ کرتے ہیں اور ہزاروں کو مغرب کی جانب بنوکِ شمشیر بھگادیتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے دیہات اور گھر وں کو نذرآتش کررہے ہیں۔ اس ظلم وتشدد کو سکھوں کی اعلی قیادت نے منظم کیا ہے اور یہ خوفناک کام بڑے معین طریقے سے علاقہ بہ علاقہ کیاجارہاہے ۔ دوسری رپورٹ میں لکھتا ہے امرتسر میں 8اگست کے بعد مسلمانوں کے محلوں کے محلے دھڑا دھڑجلناشروع ہوگئے تھے اور لوگ پناہ کے لئے بھاگنا شروع ہوگئے ۔13اور 14اگست کو پورا امرتسر شعلوں کی لپیٹ میں آچکاتھا ۔ 15اگست کو امرتسر میں ہندوستان کا یوم آزادی بڑے عجیب طریقے سے منایاگیا۔ سہ پہر کو سکھوں کے ایک ہجوم نے مسلمان عورتوں کا جلوس امرتسر کے گلی کوچوں میں نکالا۔ ان کی آبروریزی کی اور پھر بعض کو کرپانوں سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور بعض کو زندہ جلادیا۔ تیسری رپورٹ میں وہ مسلمانوں کے ایک بیس میل لمبے قافلے کے بارے میں ایک خبر ان الفاظ میں بجھواتاہے اس قافلے میں بیس ہزار سے زائد افرا د تھے اور ان میں سے اکثر پید ل ہی پاکستان کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ایسے ہی کئی اور قافلے مشرق سے مغر ب کی طرف رواں دواں تھے۔ آبلہ پا ، تھکان سے چور، بھوکوں کے مارے، سفر کی صعوبتوں سے نڈھال۔ دوماہ بعد وہ لکھتاہے 70لاکھ سے زائد مہاجرین گرتے گراتے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ 




وہ بالکل بے سروسامان تھے۔ ان کے پاس تن کے کپڑوں کے سوا اور کچھ نہ تھا اور ان کپڑوں کی بھی اکثر دھجیاں اڑی ہوئیں تھیں۔ یہ وہ دردکشانِ بلا تھے جنہوں نے معصوم بچوں کا قتل ،لاشوں کی قطع وبریدی اور عورتوں کی بے حرمتی اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی ۔ راستے میں ہر قدم پر موت ان کی گھات میں تھی ۔ ان میں سے ہزاروں بھوک وبیماری سے راستے ہی میں جاں بحق ہوگئے یاسکھوں کے خون آشام جتھوں نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بہت سے پاکستان کی سرحد پرپہنچتے ہی ابدی نیند سوگئے۔ 


(بحوالہ :خونِ مسلم ارزاں ہے۔از ڈاکٹر سعید احمد 

ملک)


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.