*ہم نے پڑھا ہی نہیں ۔کبھی حضرت عمر فاروق کو۔۔۔ پڑھ کے تو دیکھو*



 حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی عاجزی: ایک ایمان افروز واقعہ


!ہم نے حضرت سَیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بہت ہی پیارے وصف"عاجزی"کے بارے میں ایمان افروزواقعہ سُنا،یکم مُحَرَّمُ الْحَرَامکوآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کا یومِ عُرس منایا گیا۔آئیے! اِسی مناسبت سے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی سِیْرَتِ مُبارکہ کے مُتَعَلِّق کچھ مدنی پُھول سُننے کی سَعادَت حاصِل کرتے ہیں خلیفۂ دُوُم، جانَشینِ پیغمبر،حضرتِ سیِّدُنا عُمَر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکی کُنْیَت’’ ابُوحَفْص‘‘ ہے۔ (مستدرک للحاکم حدیث ۵۰۴۲، ۴/۲۳۹)اور لقَب’’فاروقِ اَعظم‘‘ہے،یہ لقَب آپ کو بارگاہِ رسالت سے عطا ہوا۔ اُمُّ المؤمنین حضرت سیدتُنا عائشہ صِدِیقَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا سے روایت ہے فرماتی ہیں: رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَنے اَمیرُ المؤمِنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کانام(یعنی لقب)’’فارُوق‘‘رکھا۔(تھذیب الاسماء۲/۳۲۵)اوردَورِجاہِلیَّت اور دَورِاسلام دونوں میں آپرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکانام’’عُمَرْ‘‘ہی رہا۔(رِیاضُ الْنُضْرَۃ ، ۱/۲۷۲)اور’’عمر‘‘کےمعنی ہیں آباد رکھنے والایاآباد کرنے والا۔ حضرت سیِّدُناعمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سبب چُونکہ اِسلام كو آباد ہونا تھا ،اس لیے   اللہ عَزَّ  وَ جَلَّ نے پہلے ہی آپ کو’’ عمر‘‘ نام عطا فرمادیا۔(مراٰۃ المناجیح ، ۸/۳۶۰)
فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وِلادَت
!حضرت سیِّدُناعُمَرْ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ عامُ الفِیل کے13 سال بعدمَکَّۃُ الْمُکَرَّمَۃْ میں پیدا ہوئے،یُوں آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تاریخِ وِلادَت 583 عیسوی جو کہ ہجرت سے تقریباً41سال پہلے ہے۔آپرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سیِّدُنا صِدِیقِ اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے عُمَرْ میں تقریباً ساڑھے دس سال اوررَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عُمَرْ میں تقریباً تیرہ سال(13) چھوٹے ہیں۔(اُسْدُ الغَابَۃ۴/۱۵۷،ماخوذا)
سرکارِ ِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دُعَا مُبارک
اللہ عَزَّوَجَلَّ  کے فضل و کرم اورخاتَمُ الْمُرْسَلین،رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی مُبارک دُعا کی برکت سےاَمیرُالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظمرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ 39 مردوں کے بعداِعلانِ نُبُوَّت کے چھٹے(6) سال میں ایمان سےمُشرف ہوئے۔(الرّیا ض النضرۃ ۱/ ۲۸۵،طبقات کبریٰ ۳/۲۰۴):چُنانچہ حدیثِ مبارک میں ہے سرکار  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یُوں دُعا فرمائی اَللّٰھُمَّ اَعِزَّ الْاِسْلامَ بِعُمَر بْنِِ الخَطَّابِ خَاصَّۃً: یعنی اےاللہ عَزَّ  وَجَلَّ تُو بالخصوص عمر بن خطّابرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ذریعے دِینِ اسلام کو عزّت اور بُلندی نصیب فرما۔(ابن ماجہ،۱/۷۷، حدیث: ۱۰۵)
آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کے اِسلام قَبول کرنے سے مُسَلمانوں کو بے حد خُوشی ہوئی اوراُن کو بَہُت بڑا سَہارا مل گیا ،یہاں تک کہ حُضُور رحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر حَرَمِ مکہ میں اِعْلانِیہ نَماز اَدا فرمائی اورآپرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسرورِ کائنات، شَہنْشاہِ موجودات صَلَّی اللہُ   عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کی تمام اسلامی تَحریکات اورصُلْح وجنگ وغیرہ کےتمام معاملات میں وزیر ومُشیرکی حیثیَّت سے وَفادار رہے۔حضرتِ سیِّدُناابُوبکرصِدِّیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بعدحضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کوخلیفہ مُنْتَخَب فرمایا،آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنےتقریباًدس (10)سال چھ(6) ماہ کی مُدَّتْ تک تختِ خِلافت پر رَونق اَفروز رہ کر جانَشینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی تمام تر ذِمّے داریوں کو بہت اچھے طریقے سے سر اَنجام دیا۔(تارِیخُ الْخُلَفاء،  ص۱۰۸،کراماتِ فاروقِ اعظم ،ص۶)
سَیِّدُناعُمَر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات ایک دن نَمازِ فَجْر میں ایک بدبخت ابُولؤلؤ فیروز نامی غیر مسلم نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر خنجر سے وار کیااور آپرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ زَخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے تیسرے دن شرفِ شہادَت سے مُشرَّف ہوگئے۔بوقتِ شہادت آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی عُمر شریف63برس تھی۔(الرِّیا ضُ النَّضْرۃ ۱/۴۰۸،۴۱۸)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب!
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
فاروقِ اعظم  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عاجزی وانکساری
 !اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی عَطا سے کسی کو  مَنْصَب ِ خِلافَتْ یا مَنْصَبِِ حکومت ملنا بہت بڑی سَعادت ہے۔اس مَنْصَب کا حقیقی معنوں میں حق اُسی وقت ادا ہوسکے گا،جب  وہ حاکم اپنی رِعایا کے ساتھ عدل و انصاف کرے،لوگوں کے حُقُوق کی ادائیگی میں ہر وقت فکر مند رہےنیز اللہعَزَّ  وَجَلَّ اور اُس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت وعبادت میں بھی زندگی بسر کرتا رہے،ورنہ جوحاكم ان كاموں سے رُوگِردانی کرتے ہوئے، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی نافرمانی والے کاموں کا مُرتکب ہوگا تو اس کے دُنیا وآخرت میں  ذلیل و رُسوا ہونے کا خوف ہے۔ عموماًجب کسی کو کوئی بڑا عُہدہ ملتا ہے تو وہ شكرِالٰہی بجالانے اوراس مَنْصب کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بجائے، طرح طرح کے باطنی اَمراض مثلاً تکبُّر،خودپسندی اورحُبِّ جَاہ وغیرہ گناہوں میں مبُتلا ہو جاتا ہے اور بسااوقات سركشی میں اس حدتک بڑھ جاتاہے کہ لوگوں کے حق تلف  کرنا ،اُنہیں ظلم وستم كا نشانہ بنانا،اپنے منصب سے ناجائزفائدہ اُٹھاتے ہوئے قتل وغارت گَری کا بازار گرم کرنا،اس کی نظر میں گویا کوئی بُرائی ہی نہیں ہوتی اورایسے گناہوں بھرے حالات میں عاجزی و انکساری اورحِلْم وبُرْدباری پیدا ہونابہت مشکل ہے۔ہاں دُنیا میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ  کےنیک بندے ایسے بھی ہوئے ہیں جنہوں نے بڑے  سے بڑا عُہدہ ملنے کے باوُجُود بھی عاجزی وانكساری اورسادگی کو اپنائے رکھا۔ آئیے!اس ضمن میں حضرتِ سیِّدُنا عُمَر فاروقِ اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عاجزی وانکساری سے مالا مال چار(4) مدنی پھول سنتے ہیں،چُنانچہ
1 )حضرت سیِّدُنا سعید بن مُسَیبرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: اَمیرُ المؤمنین حضرت سیِّدُنا عُمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب شہر سے باہر کہیں سفروغیرہ پرتشریف لےجاتےتوراستے میں اِسْتِرَاحَت (یعنی آرام)کے لیے مٹّی کا ڈھیر لگا کر اُس پر کپڑا بچھاتے اور پھر آرام فرماتے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،حدیث۲۱،۸/۱۵۰)
2 )حضرت سیِّدُنا ذرْ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں : میں عید کے دن مدینہ کے کچھ لوگوں کے ساتھ (نمازِ عید کے لیے) نکلاتو میں نے راستےمیں امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو دیکھا کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ (نمازِ عید کےلیے) ننگے پاؤں ہی تشریف لیے جارہے ہیں۔(مُسْتَدْرَک لِلحاکم ، حدیث۴۵۳۵، ۴/۳۲)
3 )حضرتِ سیِّدُناحَسَن بَصَریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:حضرتِ سیِّدُناعُمَرْ بِنْ خَطَّاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بسا اَوقات آگ کے قریب ہاتھ لے جاتے پھر اپنے آپ سے سُوال فرماتے:اے خَطّاب کے بیٹے ! کیا تجھ میں یہ آگ برداشت کرنے کی طاقت ہے؟(مناقب عمر بن الخطاب ، ص۱۵۴)
4.)آپرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں یہ بھی منقول ہےکہ آپ مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہکے کمسن یعنی نابالغ بچوں سے اپنے لیےیُوں دُعا کرواتے کہ :اے بچّو دُعا کرو! عمر بخشا جائے۔(فضائلِ دُعا،ص۱۱۲)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.