مہنگائی کے بوجھ تلے دبے متوسط طبقے کی مشکلات اور نظام کی ناکامی

م


 


مہنگائی، بے روزگاری اور مالی بدحالی: پاکستانی عوام کی جدوجہد




میں اپنی ورک پلیس پر اکیلا فلیٹ میں رہتا ہوں۔ ویک اینڈ پر گھر جانا ہوتا ہے۔ ایک اسائنمنٹ کی وجہ سے اس ویک اینڈ پر گھر نہیں گیا آج فلیٹ پر ہی ہوں۔


آج 75 دن بعد فلیٹ پر آیا ہوں تو سب سے پہلے سارا گھر دھویا ، پھر ڈسٹنگ کی۔ پھر کچن سے ایکسپائر چیزیں نکالیں۔ سامان کی لسٹ بنائی اور مارکیٹ گیا۔ 


لیکر کیا آیا ہوں۔


پانچ کلو آٹا 500، تین کلو دودھ، 600،  چار کلو گیس بھروائی،  1200،  صابن، سرف، شیمپو، وغیرہ، 2100، آئل اور بناسپتی گھی ایک ایک لٹر، 1100، آج کی سبزی لی آلو گوبھی اور ساتھ ایک پاؤ لیموں اور ایک ہفتے کا سبز مسالہ، 1300۔ گرم مسالے نمک مرچ کالی مرچ ہلدی وغیرہ، 750، ایک تالہ 300، دو عدد کوک سپرائٹ کسی مہمان کے لیے، 400، چائے کافی چینی، 1700، دو کلو آم دو کلو سیب، 1000, ہئیر آئل 300, ائیر فریشنر، 290، باڈی سپرے اور ایک رول آن، 1350۔ دانت صاف کرنے کی ٹیوب 350۔


ابھی کچھ اور بھی ہوگا۔ یہ موٹی موٹی چیزیں ہیں۔ ٹوٹل کیا تو 13,240 روپے کا بل بنا ہے۔ صرف ایک فرد کی انتہائی ضرورت کی اشیا اور وہ بھی ابھی سب کچھ پورے ماہ کا نہیں ہے۔ سبزی گوشت ابھی آگے کا پورا ماہ ریگولر آنا اور دودھ بھی۔ تقریبا 25  ہزار روپے ایک فرد کا خرچ ہے آپ پانچ ہزار کم کر لیں یعنئ فروٹ اور گوشت وغیرہ نکال دیں۔ 


ابھی فلیٹ کا رینٹ اور اے سی کے بغیر بجلی کا بل شامل کریں تو یہ 10 ہزار الگ ہے۔یعنی لگ بھگ 35  ہزار روپے میرا ماہانہ خرچ ہے۔ گاڑی کا پٹرول موبائل خرچ سلام دعا اور باہر سے چائے پانی چھوڑ کر۔  


 میں نے کبھی بھی ایسا کوئی حساب نہیں کیا۔ آج بس سودا سلف لایا تو بلز دیکھ کر جمع کر لیے۔ آج ایک بہن نے بتایا نے ان کو پرائیویٹ سکول پڑھانے کی ماہانہ تنخواہ 9  ہزار روپے ملتی ہے۔ چھٹی کرنے پر 300 روپے کٹ جاتے ہیں۔ انکے خاوند ایک سپر سٹور پر کیشئیر ہیں 20  ہزار انکی تنخواہ ہے۔ تین بچے ہیں۔ کل آمدن 29  ہزار ہے کپل کام کر رہا ہے۔ اور بجلی کا بل اس ماہ 13 ہزار آگیا ہے۔ 10 ہزار مکان کا کرایہ۔ باقی 6 ہزار میں سارا ماہ کیسے گزرے گا۔ ان کا سوال تھا کہ وہ کیا کریں کہ ان کے بچے دو وقت کا کھانا کھا سکیں۔ باہر کے ملک جانے کا خیال آتا ہے تو پاس کوئی ہنر نہیں ہے بس بی اے کر رکھا خاوند نے۔ اور ویزہ کے پیسے کہاں سے آئیں گے۔ 


اس سے ملتی جلتی لاکھوں نہیں کروڑوں گھروں کی کہانیاں ہیں۔ اس بے بسی اور بے چارگی سے کیسے نکالا جائے لوگوں کو؟ کچن کا چولہا آن رکھنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری تعلیم نہ تو یہاں کسی کام کی ہے نہ ہی عالمی مارکیٹ میں اس کے ساتھ کوئی جاب مل سکتی۔ انگلش بولنے میں ہمارے کالج بلکہ یونیورسٹی کے بچے آ با کرتے رہتے ہیں۔ پہلے الیکشن ڈھکے چھپے چوری ہوتے تھے ، اب سرعام ڈنکے کی چوٹ پر عوامی مینڈیٹ چرایا گیا ہے۔ جو زبان کھولتا ہے اسے اٹھا لیا جاتا ہے کہ تم غدار ہو ، ملکی سالمیت کو تم سے خطرہ ہے۔ مرد خودکشیاں کر رہے ہیں اور خواتین اپنی عزت بیچ کر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کا سوچ رہی ہیں۔ کسی کو کوئی امید کی کرن کسی طرف سے نظر آتی ہے؟ کیا ہو ایسا کہ ابھی نہ سہی کچھ عرصہ بعد ہی لوگوں کے حالات بدل سکیں۔ ملک چھوڑنے والے تو لاکھوں کی تعداد میں بھاگ رہے ہیں یہاں سے۔ جو باہر کے ملک نہیں جا سکتے وہ کیا کریں؟ کوئی جھوٹی سچی امید بھی دلائیں کسی کو تو کیا کہیں؟ لوگوں کے حالات سن کر بلکہ سب نظر آ رہا ہے دیکھ کر دل بیٹھ جاتا ہے اور بولتی  بند ہو جاتی ہے۔“

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.