ایک نابینا شخص کی عظیم کامیابی: سری کانتھ بولا کی متاثر کن کہانی

ایک نابینا شخص کی عظیم کامیابی: سری کانتھ بولا کی متاثر کن کہانی
ایک نابینا شخص کی عظیم کامیابی: سری کانتھ بولا کی متاثر کن کہانی






سری کانتھ بولا: نابینا ہونے کے باوجود حوصلے اور لگن کی بدولت کامیابی کی مثال


یہ جولائی 1991 کا ایک حبس زدہ دِن تھا جب آندھرا پردیش کے ایک چھوٹے سے گاؤں سیتارامپورم میں اس کی پیدائش ہوئی، وہ اپنے والدین کی پہلی اولاد تھا، پہلی اولاد کی خوشی میں اُس کے باپ نے کافی اہتمام کیا تھا، اگرچہ 2000 روپے ماہوار کمانے والا باپ کیا تیِر مار سکتا تھا لیکن پھر بھی اس نے اپنی اوقات کے مطابق کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، پہلا بیٹا پیدا ہونے کی خوشی ہی اِتنی تھی ۔ لیکن کون جانتا تھا کہ یہ خوشی تھوڑے عرصے کے لئے ہی اّس کے نصیب میں لکھی ہے،

ذرا سوچئے!  جب اُسے پتا چلا ہو گا کہ اس کا بیٹا پیدائشی طور پر دونوں آنکھوں سے دیکھنے کے قابِل نہیں ہے تو اس باپ کے دِل پر کیا بیتی ہوگی، اّس کے سارے ارمان، آسیں امیدیں آنسوؤں کے سیلاب میں کیسے بہہ گئی ہوں گی۔ 

لیکن آفرین ہے اّس غریب باپ پر جس نے  ایک لمحے کے لئے بھی اپنے آپ کو اور اپنے نابینا بیٹے کو خود ترسی میں مبتلا نہیں ہونے دیا، اُس نے اپنے بیٹے کے لئے وہ سب کچھ کیا جو وہ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے کر سکتا تھا، 

اس نابینا لڑکے کا نام سری کانتھ بولا تھا، چھ سال کا سریکانت بولا دوسال تک ہر روز اپنے بھائی کی رہنمائی میں اور اپنے ہم جماعت بچوں کے ساتھ انڈیا کے ایک گاؤں میں کئی کلومیٹر پیدل چل کر سکول جاتا رہا۔

جس راستے سے وہ سکول جاتے وہ کیچڑ والا راستہ تھا اور جا بجا جھاڑیاں اگی ہوتی تھیں، ایک بابینا کے لئے یہ  طویل راستہ طے کرنا آسان کام نہیں تھا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ بتاتا ہے کہ 'کوئی بھی مجھ سے بات نہیں کرتا تھا کیونکہ میں ایک نابینا بچہ تھا۔'

غریب، ناخواندہ والدین کے ہاں پیدا ہونے والے سریکانت کو برادری نے  بھی مسترد کر دیا تھا ۔

'لوگ میرے میرے والدین کو کہتے تھے کہ میں اپنے گھر کا چوکیدار بھی نہیں بن سکتا کیونکہ میں یہ تک نہیں دیکھ سکتا تھا کہ کوئی گلی کا کتا اندر تو نہیں آ رہا ہے۔' یہ تھے سری کانت کے بارے میں لوگوں کے خیالات جو اس نے ایک انٹرویو میں بتائے۔

8 سال کے سری کانت کو گھر سے 400کلومیٹر دور حیدرآباد کے نابینا بچوں کے ایک بورڈنگ سکول میں داخل کروایا گیا،

میٹرک میں ٪90 نمبر لے کر اّس نے  اّن سب کے منہ بند کردیئے جو اس کی اور اس کے باپ کی ہر معاملے میں حوصلہ شکنی کرتے تھے، لیکن ٪90 نمبر لینے کے بعد بھی سسٹم اّس کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھا، وہ ایف ایس سی میں داخلہ لینا چاہتا تھا، سائینس سبجیکٹ پڑھنا چاہتا تھا، لیکن انڈیا میں کوئی بھی انسٹیٹیوٹ اّس اندھے لڑکے کو داخلہ دینے پر تیار نہیں تھا، لیکن اّس نے ہمت نہیں ہاری اور 6 مہیںے کی قانونی جنگ کے بعد اْسے ایف ایس سی میں داخلہ مِل گیا،

اور جب اّس نے ایف ایس سی کا امتحان ٪98  کے امتیازی نمبروں سے پاس کیا تو لوگوں نے حیرت سے انگلیاں منہ میں داب لیں، اس کے اندھے پن کا مذاق اڑانے والوں کے منہ پر یہ ایک ایسا تمانچہ تھا کہ جِس کا جواب اّن کے جسمانی طور پر مضبوط اور صحتمند بچّے بھی دینے سے قاصر تھے۔

اب وہ انجنیئرنگ پڑھنے کے لئے انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں داخلہ لینے کا خواہشمند تھا جو انجنیئرنگ کی تعلیم کے لئے انڈیا کا سب سے مشہور اور مستند ادارہ ہے، جِس کی شاخیں پورے انڈیا میں کام کر رہی ہیں، لیکن انڈیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے اسے اندھے پن کی وجہ سے داخلہ دینے سے صاف انکار کر دیا، 

اب کی بار اّس نے قانونی چارہ جوئی کی بجائے بیرُونِ مُلک سکالرشِپ کے لئے اپلائی کیا اور اس کو داخلہ نہ دینے والے انسٹیٹیوٹ کے آفیشلز اس وقت حیران رہے گئے جب دنیا کے چار نامور اداروں  MIT, Stanford, Berkeley, Carnegie Mellon نے اسے سکالر شب پر  داخلے کی نوِید سنا دی، اس نے MIT کو ترجیح دی اور بوسٹن کی طرف رختِ سفر باندھا، امریکہ میں وہ دنیا کا پہلا نابینا بین الاقوامی سٹوڈنٹ تھا، 

اس نے تعلیم حاصل کرنے کے دوران حیدرآباد میں نوجوان معذور افراد کو تربیت اور تعلیم دینے کے لیے ایک غیر منافع بخش تنظیم، سمنوے سینٹر فار چلڈرن ود ملٹیپل ڈس ایبیلیٹی' کے نام سے شروع کی۔ اس نے چندے کے پیسے سے وہاں بریل لائبریری بھی کھولی۔

امریکہ میں اس کے شب و روز بہت مصروف اور تعلیمی لحاظ سے بہت سخت تھے لیکن وہ بتاتا ہے کہ ادارے کی 'معذوری میں مدد کرنے والی سروس' نے  اس کو بہت سپورٹ فراہم کی ،  اس نے ایم آئی ٹی سے مینجمنٹ سائنس میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور اسے کئی ملازمتوں کی پیشکش کی گئی، لیکن اس نے واپس انڈیا آنے کا فیصلہ کیا۔

سری کانت کے سکول کے تجربے نے اس پر بہت گہرے اور انمٹ نقوش چھوڑےتھے، وہ کہتا ہے کہ 'مجھے زندگی میں ہر چیز کے لیے بہت جدوجہد کرنی پڑی جب کہ ہر کوئی میری طرح لڑ نہیں سکتا اور نہ ہی میرے جیسے رہنما سب کو مل سکتے ہیں۔' اس نے مزید کہا کہ اس نے بہت غوروخوض کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ منصفانہ تعلیم کے لیے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں اگر اس کے بعد معذور افراد کے لیے ملازمت کے مواقع ہی نہ ہوں،

اس نے سوچا کہ 'کیوں نہ میں اپنی کمپنی شروع کروں اور معذور افراد کو ملازمت دوں؟' سری کانت سنہ 2012 میں حیدرآباد واپس آیا اور بولانٹ انڈسٹریز کی بنیاد رکھی۔ یہ پیکیجنگ کمپنی تار اور کھجور کے گرے ہوئے پتوں سے ماحول دوست مصنوعات جیسے بل دار پیکیجنگ تیار کرتی ہے اور اس کمپنی کی فی الحال مالیت 48 ملین پاؤنڈ ہے۔

اس کمپنی میں زیادہ سے زیادہ معذور افراد اور دماغی صحت کے عارضے میں مبتلا افراد کو ملازمت دی جاتی ہے۔ کرونا سے پہلے اس کمپنی کے 500  کے عملے میں سے 36 فیصد معذور افرادکام کرتے تھے۔

یہ کہانی ایک ایسے نابینا معذور کی ہے جو ایک قدم بھی خود چلنے کے لئے دوسروں کے سہاروں کا محتاج تھا اور آج خود کئی گھروں کا سہارا ہے۔ ان تھک محنت ، لگن اور جذبے نے آج اسے اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ بیٹھنے میں ،اس سے ملنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، یہ مشعلِ راہ ہے ہم سب کے لئے کہ اگر لگن سچی ہو اور انسان ہمت کرے تو اپنی منزل کو پا لینا کچھ مشکل نہیں ہے، 

آپ اِس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں، شکریہ

ازقلم سید علی رضا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.