مسافر، دیگر افراد کے لیے روزے کے احکام
مسافر کے لیے روزے کے احکام
(وہ مجبوری ختم ہوجا نے کی صورت میں ہرروزے کے بدلے ایک روزہ قضا رکھنا ہوگا)
{۱} مسافر کو روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا اِختیار ہے۔ (رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۶۲)
{۲} اگر خود اُس مسافر کو اور اُس کے ساتھ والے کو روزہ رکھنے میں ضرر (یعنی نقصَان) نہ پہنچے توروزہ رکھنا سفر میں بہتر ہے اور اگر دونوں یا اُن میں سے کسی ایک کونقصان ہورہا ہو تو روزہ نہ رکھنا بہتر ہے۔ (دُرِّمُخْتار ج۳ ص۴۶۵)
{۳} مسافر نے ضَحْوَۂ کُبریٰ سے پیشتر اِقامت کی اور ابھی کچھ کھایا نہیں توروزے کی نیت کرلینا واجب ہے ۔ (جَوْہَرہ ج۱ص۱۸۶)
{۴} دِن میں اگر سفر کیا تواُس دِن کا روزہ چھوڑ دینے کیلئے آج کا سفر عذر نہیں ۔ البتہ اگر دَورانِ سفر توڑ دیں گے توکفارہ لازِم نہ آئے گا مگر گناہ ضرور ہوگا۔ ( عالمگیری ج۱ص۲۰۶) اور روزہ قضا کرنا فرض رہے گا۔
{۵} اگر سفر شروع کرنے سے پہلے توڑدیا پھر سفر کیا تو (اگر کفارے کے شرائط پائے گئے تو قضا کے ساتھ ساتھ) کفارہ بھی لازِ م آئے گا۔ (اَیْضاً)
{۶} اگر دن میں سفر شروع کیا (اور دَورانِ سفر روزہ توڑ انہ تھا) اور مکان پرکوئی چیز بھول گئے تھے اسے لینے واپس آئے اور اب اگر آکر روزہ توڑ ڈالا تو(شرائط پائے جا نے کی صورت میں ) کفارہ بھی واجب ہے ۔اگر دَورانِ سفر ہی توڑدیا ہوتا تو صرف قضارکھنا فرض ہوتا جیسا کہ نمبر4 میں گزرا۔ (عالمگیری ج۱ص۲۰۷)
{۷} کسی کو روزہ توڑ ڈالنے پر مجبور کیا گیا توروزہ تو توڑ سکتا ہے مگر صبر کیا تو اَجر ملے گا۔ (رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۶۲)
{۸} سانپ نے ڈَس لیا اور جا ن خطرے میں پڑگئی تو روزہ توڑدے ۔ (اَیضاً)
{۹} جن لوگوں نے اِن مجبوریوں کے سبب روزہ توڑااُن پر فرض ہے کہ اُن روزوں کی قضا رکھیں اور اِن قضا روزوں میں ترتیب فرض نہیں ، لہٰذا اگر اُن روزوں کی قضا کرنے سے قبل نفل روزے رکھے تو یہ نفل روزے ہوگئے، مگرحکم یہ ہے کہ عذر جا نے کے بعدآیندہ رَمَضانُ الْمُبارَک کے آنے سے پہلے پہلے قضا رکھ لیں ۔ حدیثِ پاک میں فرمایا: ’’ جس پر گزشتہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی قضا باقی ہے اور وہ نہ رکھے ، اُس کے اِس رَمَضانُ الْمبارَک کے روزے قبول نہ ہوں گے۔ ‘‘ (مسند امام احمد ج۳ص۲۶۶حدیث۸۶۲۹) اگر وَقت گزرتا گیا اور قضا روزے نہ رکھے یہاں تک کہ دُوسرا رَمضان شریف آگیا تو اب قضا روزے رکھنے کے بجا ئے پہلے اِسی رَمَضانُ الْمُبارَک کے روزے رکھ لیجئے، قضا بعد میں رکھ لیجئے۔بلکہ اگر غیر مریض و مسافر نے قضاکی نیت کی جب بھی قضا نہیں بلکہ اِسی رَمضان شریف کے روزے ہیں ۔ (دُرِّ مُختار ج۳ ص۴۶۵)
{۱۰} بھوک اور پیاس ایسی ہوکہ ہلاک (یعنی جا ن چلی جا نے ) کا خوفِ صحیح ہو یانقصان عقل کا اندیشہ ہو تو روزہ نہ رکھے ۔ (دُرِّمُختار، ردُّ الْمُحتار ج۳ص۴۶۲)
فاسق یا غیر مسلم ڈاکٹر روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے تو؟
{۱۱} فقہا ئِ کرام نے روزہ نہ رکھنے کیلئے جو رُخصتیں بیان کی ہیں ان میں یہ بھی داخل ہے کہ مریض کو مرض بڑھ جا نے یا دیر میں اچھا ہونے یا تندرست کو بیمار ہو جا نے کا گمانِ غالب ہو تو اِجا زت ہے کہ اُس دِن روزہ نہ رکھے۔اس گمانِ غالِب کے حصول(یعنی حاصل کرنے) کی تیسری صورت کسی مسلمان، حاذِق طبیب مستور یعنی غیر فاسِق ماہر ڈاکٹر کی خبر بھی ہے لیکن فی زمانہ ایسے طبیب (ڈاکٹر) کا ملنا بہت ہی مشکل ہے تو اب ضرورت ِ زمانہ کا لحاظ کرتے ہوئے اس بات کی اجا زت ہے کہ اگر کوئی قابلِ اعتماد فاسق یا غیر مسلم طبیب (ڈاکٹر) بھی روزہ رکھنے کو صحت کیلئے نقصان دِہ قرار دے اور روزہ ترک کرنے کا کہے اور مریض بھی اپنی طرف سے ظن و تحری (یعنی اچھی طرح غور) کرے جس سے اُسے روزہ توڑنا یا نہ رکھنا ہی سمجھ آئے تو اب اگر اس نے اپنے ظنِّ غالِب (یعنی مضبوط سوچ) پر عمل کرتے ہوئے روزہ توڑا یا روزہ نہ رکھا تو اسے گناہ نہیں ہوگا اور روزہ توڑنے کی صورت میں کفارہ بھی اس پر لازِم نہ ہوگا مگر قضا بہرصورت ضرور فرض ہوگی اور تحری(یعنی غور کرنے) میں یہ بھی ضروری ہے کہ مریض کا دل اِس بات پر جمے کہ یہ طبیب(یعنی ڈاکٹر) خواہ مخواہ روزہ توڑنے کا نہیں کہہ رہا اور اس میں بھی زیادہ بہتریہ ہوگا کہ ایک سے زائد ڈاکٹرز سے رائے لے ۔
روزہ اور حیض و نفاس
{۱۲} روزے کی حالت میں حیض یا نفاس شروع ہو گیا تو وہ روزہ جا تا رہااس کی قضا رکھے، فرض تھا تو قضا فرض ہے اور نفل تھا تو قضا واجب۔ حیض و نفاس کی حالت میں سجدۂ شکر و سجدۂ تلاوت حرام ہے اور آیت سجدہ سننے سے اس پر سجدہ واجب نہیں ۔ (بہارشریعت ج۱ص۳۸۲) {۱۳} حیض یا نفاس کی حالت میں نماز، روزہ حرام ہے اور ایسی حالت میں نَماز و روزہ صحیح ہوتے ہی نہیں ۔ نیز تلاوت قراٰنِ پاک یا قراٰنِ پاک کی آیاتِ مقدَّسہ یا اُن کا ترجمہ چھونا یہ سب بھی حرام ہے۔ (ایضاًص۳۷۹، ۳۸۰) {۱۴} حیض یانفاس والی کے لئے اِختیار ہے کہ چھپ کر کھائے یا ظاہراً ، روزہ دار کی طرح رہنا اُس پر ضَروری نہیں ۔ ( جوہرہ ج۱ص۱۸۶) {۱۵} مگر چھپ کرکھانا بہتر ہے خصوصاً حیض والی کے لئے ۔ (بہارشریعت ج۱ص۱۰۰۴) {۱۶} حمل والی یا دُودھ پلانے والی عورت کو اگر اپنی یا بچے کی جا ن جا نے کا صحیح اَندیشہ ہے تو اجا زت ہے کہ اِ س وقت روزہ نہ رکھے، خواہ دُودھ پلانے والی بچے کی ماں ہو یا دائی، اگر چہ رَمَضانُ الْمُبارَک میں دُودھ پلانے کی نوکری اِختیار کی ہو۔ (دُرِّمُختار، ردُّ الْمُحتار ج۳ص۴۶۳)
عمر رسیدہ بُزُرگ کے روزے
{۱۷} ’’ شیخِ فانی ‘‘ یعنی وہ معمربزرگ جن کی عمرایسی ہو گئی کہ اب وہ روزبروز کمزور ہی ہوتے جا ئیں گے، جب وہ روزہ رکھنے سے عاجز(یعنی مجبور وبے بس) ہوجا ئیں یعنی نہ اب رکھ سکتے ہیں نہ آیِندہ روزے کی طاقت آنے کی اُمید ہے اُنہیں اب روزہ نہ رکھنے کی اِجا زت ہے ، لہٰذا ہر روزے کے بدلے میں ’’ فدیہ ‘‘ یعنی دونوں وقت ایک مسکین کو بھر پیٹ کھانا کھلا نا اُس پر واجب ہے یا ہر روزے کے بدلے ایک صَدَقۂ فِطْرکی مقدار مسکین کو د ے دیں ۔(دُرِّمُختار ج ۳ ص ۴۷۱) (صدقۂ فطر کی ایک مقدار 2کلو میں 80گرام کم گیہوں یا اُس کا آٹا یا اُن گیہوں کی رقم ہے)
{۱۸} اگر ایسا بوڑھا گرمیوں میں روزے نہیں رکھ سکتا تو نہ رکھے مگر اِس کے بدلے سردیوں میں رکھنا فرض ہے۔ (ردُّالْمُحتار ج۳ص۴۷۲)
{۱۹} اگر فدیہ دینے کے بعد روزہ رکھنے کی طاقت آگئی تو دیا ہوا فدیہ صَدَقۂ نفل ہو گیا۔اُن روزوں کی قضا رکھیں ۔(عالمگیری ج۱ص۲۰۷)
{۲۰} یہ اِختیار ہے کہ شروعِ رَمضان ہی میں پورے رَمضان (کے تمام روزوں ) کا ایک دَم فدیہ دے دیں یا آخِر میں (سب اِکٹّھے دے) دیں ۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۴۷۲)
{۲۱} فدیہ دینے میں یہ ضروری نہیں کہ جتنے فدیے ہوں اُتنے ہی مَساکین کو الگ الگ دیں ، بلکہ ایک ہی مسکین کو کئی دِن کے (ایک ساتھ) بھی دیئے جا سکتے ہیں ۔(اَیضاً)
نَفْل روزہ توڑنے میں صِرف قضا ہوتی ہے کفّارہ نہیں
{۲۲} نفل روزہ قصداً شروع کرنے والے پر اب پورا کرنا واجب ہوجا تا ہے کہ توڑ دیا تو قضا واجب ہوگی۔(ردُّ الْمُحتار ج ۳ ص ۴۷۳)
{۲۳} اگر آپ نے یہ گمان کرکے روزہ رکھا کہ میرے ذِمے کوئی روزہ ہے مگر روزہ شروع کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ مجھ پر کسی قسم کاکوئی روزہ نہیں ہے، اب اگر فوراً توڑ دیا توکچھ نہیں اور یہ معلوم کرنے کے بعد اگر فوراًنہ توڑا، تو اب نہیں توڑسکتے ، اگر توڑیں گے تو قضا واجب ہوگی۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۴۷۳)
{۲۴} نفل روزہ قصداً (یعنی جا ن بوجھ کر) نہیں توڑا بلکہ بلا اِختیار ٹوٹ گیا، مَثَلاً دَورانِ روزہ عورت کوحیض آگیا، جب بھی قضا واجب ہے۔ (اَیضاًص۴۷۴)
سال میں پانچ روزے حرام ہیں
{۲۵} عید الفطر یا بقرعید کے چار دِن یعنی10، 11، 12، 13ذُوالحِجّۃِ الْحرام میں سے کسی بھی دِن کا روزئہ نفل رکھا تو (چونکہ اِن پانچ دِنوں میں روزہ رکھنا حرام ہے لہٰذا ) اِس روزے کا پورا کرنا واجب نہیں ، نہ اِس کے توڑنے پر قضا واجب، بلکہ اِس کا توڑدینا ہی واجب ہے اور اگر اِن دِنوں میں روزہ رکھنے کی منت مانی تو منت پوری کرنی واجب ہے مگر اِن دِنوں میں نہیں بلکہ اور دِنوں میں ۔ (ردُّ الْمُحتارج۳ص۴۷۴)
{۲۶} نفل روزہ بلاعذر توڑ دینا ناجا ئز ہے، مہمان کے ساتھ اگر میزبان نہ کھائے گا تو اُسے ناگوار ہوگا یا مہمان اگر کھانا نہ کھائے گا تو میزبان کو اَذِیت ہوگی تو نفل روزہ توڑدینے کیلئے یہ عذر ہے، بشرطیکہ یہ بھروساہو کہ اِس کی قضا رکھ لے گا اور ضَحْوَۂ کُبریٰ سے پہلے توڑدے بعد کو نہیں ۔ (بہار شریعت ج۱ص۱۰۰۷ ، عالمگیری ج۱ص۲۰۸)
دعوت کے سبب روزہ توڑنا
{۲۷} دعوت کے سبب ضَحْوَۂ کُبریٰسے پہلے(نفل) روزہ توڑ سکتا ہے جبکہ دعوت کرنے والا محض(یعنی صرف) اس کی موجودَگی پر راضی نہ ہو اور اس کے نہ کھانے کے سبب ناراض ہو بشرطیکہ یہ بھروسا ہوکہ بعد میں رکھ لے گا، لہٰذا اب روزہ توڑ لے اور اُس کی قضا رکھے ۔لیکن اگر دعوت کرنے والامحض(یعنی صرف) اس کی موجودَگی پر راضی ہو جا ئے اور نہ کھانے پر ناراض نہ ہو تو روزہ توڑنے کی اجا زت نہیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۲۰۸)
} نفل روزہ زَوَال کے بعد ماں باپ کی ناراضی کے سبب توڑسکتا ہے، اوراِس میں عصر سے پہلے تک توڑ سکتا ہے بعد عصر نہیں ۔ (دُرِّمُخْتار، رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۷۷)
بیوی بِلا اجا زتِ شوہر نفل روزہ نہیں رکھ سکتی
{۲۹} عورت بغیر شوہر کی اِجا زت کے نفل اور منت وقسم کے روزے نہ رکھے اور رکھ لئے تو شوہرتڑواسکتا ہے مگر توڑے گی تو قضا واجب ہوگی مگر اِس کی قضا میں بھی شوہر کی اِجا زت دَرکار ہے۔یاشوہر اوراُس کے دَرمیان جدائی ہوجا ئے یعنی طلاقِ بائن( طلاقِ بائن: اُس طلاق کو کہتے ہیں جس سے بیوی نکاح سے باہر ہو جا تی ہے ، اب شوہر رُجوع نہیں کر سکتا) دے دے یا مرجا ئے ۔ہاں اگر روزہ رکھنے میں شوہر کا کچھ حرج نہ ہو، مَثَلاً وہ سفر میں ہے یا بیمارہے یا اِحرام میں ہے تو ان حالتوں میں بغیر اِجا زت کے بھی قضا رکھ سکتی ہے بلکہ وہ منع کرے جب بھی رکھ سکتی ہے۔البتہ اِن دنوں میں بھی شوہر کی اِجا زت کے بغیر نفل روزہ نہیں رکھ سکتی۔(رَدُّالْمحتار ج۳ص۴۷۷، ۴۷۸)
{۳۰} رَمَضانُ الْمُبارَک اور قضائے رَمَضانُ الْمُبارَک کیلئے شوہر کی اِجا زت کی کچھ ضرورت نہیں بلکہ اُس کی ممانعت پر بھی رکھے۔ (دُرِّمُخْتار، رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۷۸)
{۳۱} اگر آپ کسی کے ملازِم ہیں یا اُس کے یہاں مزدوری پر کام کرتے ہیں تواُس کی اِجا زت کے بغیر نفل روزہ نہیں رکھ سکتے کیوں کہ روزے کی وجہ سے کام میں سستی آئے گی۔ہاں روز ہ رکھنے کے باوُجود آپ باقاعدہ کام کرسکتے ہیں ، اُس کے کام میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوتی، کام پورا ہوجا تا ہے تواب نفل روزے کی اِجا زت لینے کی ضَرورت نہیں ۔ (ردُّالْمحتار ج۳ص۴۷۸)
{۳۲} نفل روزے کیلئے بیٹی کو باپ ، ماں کو بیٹے، بہن کو بھائی سے اِجا زت لینے کی ضرورت نہیں ۔ (اَیضاً)
{۳۳} ماں باپ اگر بیٹے کو روزئہ نفل سے منْع کردیں اِس وجہ سے کہ مَرض کا اندیشہ ہے تو ماں باپ کی اِطاعت کرے۔ (اَیضاً)
#روزہ #رمضان #مسافر_کا_روزہ #قضا_روزہ #اسلامی_احکام #رمضان_مبارک #مریض_کا_روزہ #حیض_و_نفاس #فدیہ #کفارہ
نُورانی پہاڑ اور ماہِ رجب کی فضیلت
نماز میں جلد بازی کے خطرات اور نقصانات
جھوٹ موٹ نماز پڑھنے والے ڈاکو: اللہ کی رحمت اور توبہ کا درس